کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطاکار بہت ہیں

کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطاکار بہت ہیں
اک رسمِ وفا تھی سو وفادار بہت ہیں

لہجے کی کھنک ہو کہ نگاہوں کی صداقت
یوسف کے لئے مصر کے بازار بہت ہیں

کچھ زخم کے رنگ میں گلِ تر کی قریں تھے
کچھ نقش کہ ہیں نقش بہ دیوار، بہت ہیں

راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا
رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں

اِک خواب کا احساں بھی اُٹھائے نہیں اُٹھتا
کیا کہیے کہ آسودۂ آزار بہت ہیں

کیوں اہلِ وفا! زحمتِ بیداد نگاہی
جینے کے لئے اور بھی آزار بہت ہیں

ہر جذبۂ بے تاب کے احکام ہزاروں
ہر لمحۂ بے خواب کے اصرار بہت ہیں

پلکوں تلک آ پہنچے نہ کرنوں کی تمازت
اب تک تو ادا آئینہ بردار بہت ہیں

Posted on May 07, 2011